وسطی یورپ کا اہم ترین ملک جرمنی اردو ادب کے حوالے سے علامہ اقبال کے دور سے آشنا ہے اور جرمنی کی ادب پر وری اور پذیرائی اس بات سے عیاں ہے آج بھی مقامِ اقبال ہایئڈل برگ میں تاریخی ورثہ کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے جو طالبانِ علم و ادب کے لئے روحانی استعارہ کے طور پر ہمیشہ کے لئے موجود رہے گا۔ گو جرمنی میں اردو زبان بولنے سمجھنے والے اتنی زیادہ تعداد میں نہیں ہیں لیکن جتنے بھی ہیں اپنے علم و ہُنر میں کمال رکھتے ہیں۔ ہیمبرگ،ہایئڈل برگ، برلن، بون ، فرینکفرٹ اور سٹُٹ گارٹ میں اکثر علمی و ادبی محافل تِشنگانِ ادب کی تشفی کے لئے وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔
ایسے ہی ہیمبرگ میں موجود نابغہِ روزگار شخصیت روحانی سکالر، شاعرہ مصنفہ طاہرہ رباب کے تیسرے مجموعہ کلام رزمگاہِ شعور کے اجراء کی تقریب کا انعقاد ہیمبرگ کی معروف یونیورسٹی ہاربرگ میں ہُوا۔ جس کے سارے انتظامات پی ایس اے کے سابق صدر فراز نے سنبھالے۔
تقریب میں سفیرِ پاکستان جناب جوہر سلیم نے خصوصی شرکت کی جو ان کی ادب دوستی کی مظہر تھی۔
یہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی ۔ پہلے حصے میں کتاب کی رونمائی تھی اور اس کی صدارت جناب عارف نقوی نے کی جو بلا شبہ عصرِ حاضر میں اردو ادب کا اثاثہ ہیں۔ جوہر سلیم سفیرِپاکستان، مانچسٹر سے تشریف لائی ہوئی معروف شاعرہ نغمانہ کنول شیخ، مانچسٹر ہی سے مخدوم امجد شاہ ٹی وی اینکر ، شاعر , جرمنی کے شاعر اسحاق ساجد اور صدرِ محفل ادیبِ عصر سید عارف نقوی نے رزمگاہِ شعور کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں اس بات کا برملا اظہار کیا کہ طاہرہ رباب کی شاعری عصرِ حاضر میں نسائی شاعری کی معراج پر ہونے کے ساتھ ساتھ معرفتِ الٰہی کے نئے دریچے دریافت کرتی ہے۔
مصنفہ کے پُرانے رفیق جہانگیر سلیم جو اس تقریب کے روحِ رواں تھے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے لئے سعادت ہے کہ طاہرہ رباب کے مجموعہ کے اجراء کی تقریب کا انعقاد کروا رہے ہیں اور آیئندہ بھی ایسی ادبی محافل کے انعقاد کا اعادہ کیا۔
اس بارونق محفل کے دوسرے حصے میں مشاعرہ تھا جس کی صدارت مانچسٹر کی معروف شاعرہ نغمانہ کنول شیخ نے کی جو خود پندرہ کتابوں کی خالق ہیں۔ مشاعرے میں معروف شعراء نے اپنا کلام پیش کر کے حاضرین و سامعین سے بے پناہ داد وصول کی۔
مخدوم امجد شاہ مانچسٹر سے اور سید عارف نقوی مشاعرے کے مہمانانِ خصوصی تھے۔ ان کے علاوہ برلن سے پروفیسر سکالر اور صحافی عشرت معین سیما، سید انور ظہیر راہبر ، فرینکفرٹ سے معروف شاعر طاہر عدیم، امجد علی عارفی، قمبر علی عارفی،lاسحاق ساجد نے اپنی شاعری سے محفل میں رنگ بکھیر دئے۔ خاص طور پر امجد علی عارفی کی پنجابی شاعری نے مشاعرہ لُوٹ لیا۔ مہمانِ خصوصی سید عارف نقوی کی عارفانہ قوالی “اللہ ہُو” نے محفل پر سحر طاری کر دیا۔ محترمہ طاہرہ رباب نے اپنی شاعری سے چند اشعار پیش کئے جو بلا شبہ بے مثال تھے اور خوب داد سمیٹی۔ بعد ازاں میزبان جہانگیر سلیم نے مہمان شعراء کو شیلڈز دیں۔
اس پروگرام کا ایک اور بہت اہم ایونٹ موسیقی تھا جس میں پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ اُستاد حُسین بخش گُلو کے فرزندِ ارجمند خان شبیر خان گُلو نے اپنے فَن کا مظاہرہ کرنا تھا جو تنگیِ وقت کے باعث نہ کیا جا سکا جس کا قلق آیئندہ پروگرام تک رہے گا۔
اس سارے پروگرام کی نظامت بیلجیم سے تشریف لائے ہوئے صحافی شاعر چوہدری عمران ثاقب نے کی۔
اس رنگ بھرے پروگرام میں جناب شوکت قریشی، جناب مسرت عباس بھٹی، جناب جہانگیر سلیم اور سٹوڈنٹ لیڈر فراز کے علاوہ انکے ساری ٹیم نے بہت عمدہ انتظامات کئے اور بھرپور محنت سے سارا کام سر انجام دیا۔